وہ شخص میری ذات کی جھولی میں آ گرا
سورج تھا کیسے رات کی جھولی میں آ گرا
مٹی کے بت کو سانس دلانے کی دیر تھی
انسان حادثات کی جھولی میں آ گرا
جب میں نے کچھ کہا ہی نہیں تھا تو کس لئے
وہ شخص میری بات کی جھولی میں آ گرا
لازم کیا نہ صبر کو ہر حال میں یہاں
صوفی بھی خواہشات کی جھولی میں آ گرا
خوشبو کے اک حصار نے پھر مجھ کو آ لیا
اک شخص التفات کی جھولی میں آ گرا
اک ریشمی سی جاگزیں مسکان اور پھر
فوزی وہ میری ذات کی جھولی میں آ گرا
فوزیہ اختر رِدا ، کلکتہ ، انڈیا
केयर फाउणडेशन द्वारा संचालित:
तपाईंको प्रतिकृयाहरू