०२ माघ २०८१

غزل

فوزیہ اختر رِدا ، کلکتہ ، انڈیا

२८ चैत्र २०७४, बुधबार १७:२७ मा प्रकाशित

وہ شخص میری ذات کی جھولی میں آ گرا 
سورج تھا کیسے رات کی جھولی میں آ گرا

مٹی کے بت کو سانس دلانے کی دیر تھی
انسان حادثات کی جھولی میں آ گرا

جب میں نے کچھ کہا ہی نہیں تھا تو کس لئے
وہ شخص میری بات کی جھولی میں آ گرا

لازم کیا نہ صبر کو ہر حال میں یہاں
صوفی بھی خواہشات کی جھولی میں آ گرا

خوشبو کے اک حصار نے پھر مجھ کو آ لیا 
اک شخص التفات کی جھولی میں آ گرا

اک ریشمی سی جاگزیں مسکان اور پھر
فوزی وہ میری ذات کی جھولی میں آ گرا

فوزیہ اختر رِدا ، کلکتہ ، انڈیا

तपाईंको प्रतिकृयाहरू

प्रधान सम्पादक

कार्यालय

  • सुचनाबिभाग दर्ता नं. ७७१
  • news.carekhabar@gmail.com
    विशालनगर,काठमाडौं नेपाल
Flag Counter