نشیلی سرخ آنکھیں ہیں خماری لکھ دیا میں نے
کٹیلے نقش ہیں صورت بھی پیاری لکھ دیا میں نے
سنوارا ہے بڑے انداز سے پھر نوکِ کاجل کو
چبھی جو پیار سے دل میں کٹاری لکھ دیا میں نے
جو بولے تو کلی کومل ہنسے تو پھول کھل جائیں
وہ لاڈ و پیار کی دیوی دلاری لکھ دیا میں نے
اسے رسمِ محبت کو نبھانا ہی نہیں آتا
مرا محبوب ہے ناداں اناری لکھ دیا میں نے
جو اس نے رکھ دیا اپنے قدم کو صحن گلشن میں
چلی پھر جھوم کر بادِ بہاری لکھ دیا میں نے
رچانے آگئیں پھر گوپیاں بھی راس لیلائیں
کہ خود کو جب کرشنا و مُراری لکھ دیا میں نے
ثاقب ہارونی
केयर फाउणडेशन द्वारा संचालित:
तपाईंको प्रतिकृयाहरू