نیپالی حاجیوں کے بعض اہم مسائل اور تجاویز
سراج احمد برکت اللہ فلاحی
१९ जेष्ठ २०७५, शनिबार ११:४२ मा प्रकाशित
فریضۂ حج اسلام کے پانچ اساسی ارکان میں سے ہے جس کا انکار موجب کفر ہے،اس کادین اسلام میں بہت اونچا مقام ہے۔ حج دین کا شعار اور مسلمانوں کی پہچان ہے۔ عبادتوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اتحاد امت کا بہت بڑا مظہر، اہم ذریعہ اور سبب ہے ۔ ایمان ومعاملات ، اخلاق وعادات اور عبادات غرض زندگیوں میں تبدیلی بلکہ انقلاب پیدا کرنے والا فرض ہے۔ اس کے اثرات وفوائد بہت گہرے، مؤثر اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اور اگر آداب وشرائط کے ساتھ ادا کیا جائے تو آخرت کے اعتبار سے انسان کے سارے گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔ رب تعالیٰ کی طرف سے مطلق مغفرت اور عام معافی کا ذریعہ ہے۔
گزشتہ چندسالوں سے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا سے حجاج کرام کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ الحمدللہ نیپال سے بھی عازمین حج کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ پہلے متعین تعداد بھی نہیں پہنچتی تھی،مگر اب نیپالی حجاج کا کوٹہ کم ہونے کی وجہ سے دودوسال عازمین کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دینی بیداری، علم میں اضافہ، سفر کی سہولت، حرم اور مقامات حج میں وسعت اور پیدا کردہ گنجائش اورمسلمانوں میں مال ودولت کی فراوانی کے باعث نیپال سے بھی اب پہلے سے زیادہ تعداد میں مسلمان حج کا فارم بھرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مرکز توحید پہنچ کر فریضۂ حج ادا کریں۔
حج کا سفر ایک مہینہ یا اس سے زائد ایام پر مشتمل ہوتا ہے اور تقریباًبارہ سو نیپالی مسلمان سفر حج پر ہوتے ہیں ۔ جن میں بڑے بوڑھے ، کم پڑھے لکھے اور دیہات کے لوگوں کی بڑی اکثریت ہوتی ہے۔عام طور پرحاجیوں کی روداد سفر بہت دلخراش اور پریشان کن ہوتی ہے۔جب کہ یہ سفر خالص دینی سفر ہوتاہے، اللہ کے گھر کی زیارت اور نبی اکرمﷺ کی مسجد کی زیارت کاسفر ہوتاہے اور حجاج دراصل اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے مسائل وحالات پر غور کیا جائے اور اس سفر کو آسان سے آسان بنانے کی کوشش کی جائے۔
ذیل کی تحریر میں خود اپنے مشاہدات اور بعض اہل علم بھائیوں سے استفادہ کی روشنی میں نیپال کے حاجیوں کے مسائل بیان کئے جارہے ہیں اور ساتھ ہی مطلوب سہولیات اور تجاویز بھی درج کی جارہی ہیں ۔ امید ہے اس سے خود عازمین حج کو بھی فائدہ ہوگا اور نیپال حج کمیٹی کے ذمہ داران اورحجاج کے امور ومعاملات کے جو لوگ نگراں ہیں ان کو بھی کسی قدر رہ نمائی مل سکے گی۔
۱۔ حج کے سلسلہ میں اعلان اور درخواست فارم کی وصولیابی سے لے کر دیگر تمام انتظام وانصرام وزارت داخلہ کے تحت انجام پاتے ہیں ۔ جب تک علاحدہ وزارت حج کا قیام نہیں ہوجاتا ہے اور حج ہاوس کی تعمیر نہیں ہوجاتی ہے ان مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے،نیز ضروری ہے کہ اس سلسلہ کے تمام اعلانات نیپالی زبان کے ساتھ اردو زبان میں بھی ہوں، نیز اعلانات صرف ضلع پرشاشن کاریالے سے نہ ہو بلکہ ملک کے بڑے دینی اداروں، دینی جماعتوں اور بڑی مساجد میں بھی اس کا اعلان کرایا جائے یا کم ازکم ان جگہوں پر اعلانات آویزاں کرنے کا باقاعدہ اہتمام ہو۔ حج خالص دینی فریضہ ہے، ان دینی مراکز سے اس سلسلہ کی معلومات عام مسلمانوں تک پہنچیں گی توانہیں آسانی ہوگی اور کم وقت میں تمام مسلمانوں تک معلومات پہنچ جائیں گی۔
۲۔ ضلع پرشاشن کاریالیہ میں فارم کی فراہمی، فارم بھرنے ، نیز رقوم کی ادائیگی وغیرہ کو مزید سہل بنایا جائے اور ان دفاتر میں کمپیوٹر وغیرہ کی اچھی معلومات رکھنے والے افراد رکھے جائیں، نیز امور حجاج کے لئے الگ کاؤنٹر بھی ہو، اور آن لائن فارم بھرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ،اعلان ہوتے ہی خواہش مند حضرات کہیں سے بھی فارم بھرلیں اور اس کاریکارڈ لے کر سی ڈی او دفتر آئیں اور آگے کی کاروائی کرالیں جس طرح سے گاڑیوں کے لیے ڈی ایل وغیرہ کا فارم آن لائن بھرنے کی سہولت دی گئی ہے۔
۳۔حج کے لیے خواہش مند حضرات کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں منتخب کرنے کے لیے جو ضابطے بنائے جاتے ہیں اُن کو مکمل اور صحیح ڈھنگ سے نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ حج کے امور میں تعلقات، سیاسی لیڈروں کے دباو ، حج کمیٹی میں موجود افراد کے اصرار یا کسی اور وجہ سے انتخاب میں الٹ پھیر یادھاندھلی ہرگز نہ کی جائے۔ اس ضمن میں ایمان داری کی بڑی ضرورت ہے، بلکہ بہتر ہے کہ ہر ضلع کے لئے پہلے سے کوتا متعین ہو اور چند اضافی فارم جمع کرنے کی گنجائش اس تفصیل کے ساتھ ہو کہ اگر مجموعی تعداد کم رہی تو موقع دیا جا سکتا ہے۔
۴۔ نام فائنل ہونے کے بعد سب سے پہلا کام فنگر پرنٹ لینے کا ہوتا ہے، فنگر پرنٹ لینے والی مشین غالباً صرف ایک ہے جو باری باری سی ڈی او دفاتر میں گشت کرائی جاتی ہے اور فنگر پرنٹ لینے والے افراد بھی بہت سست روی کے ساتھ فنگر پرنٹ لیتے ہیں۔ بالعموم دودوتین تین بار لوگ فنگر پرنٹ دیتے ہیں تب وہ اس کا مطلوبہ ریکارڈ بناپاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ناگزیر ہے کہ ان اہل کاروں کو پہلے سے اچھی طرح ٹرینڈ کیا جائے اور فنگر پرنٹ مشین بھی کم ازکم صوبوں کی تعداد کے برابر ہوں، تاکہ ایک دفعہ وہاں جا کر فنگر پرنٹ دے سکیں۔
۵۔اس کے بعد کا مرحلہ گھر سے کاٹھمنڈو سفر کا ہے۔ اس کے لئے بہتر ہے کہ آس پاس کے لوگ باہم رابطہ کرکے ایک ساتھ سفر کریں ، بس ریزرو کرلیں باقاعدہ بینر لگا کرسفر کریں۔ گھر سے نکلتے وقت شرعی آداب کا خیال رکھیں اور غیر ضروری مراسم اور لوازمات سے احتراز کریں۔
۶۔ فلائٹ سے پہلے ضروری کارروائی کے لیے حاجیوں کو کشمیری مسجد اور نیپالی جامع مسجد میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس دوران انجکشن، پاسپورٹ ، ضروری رقم، شناختی کارڈ وغیرہ دیاجاتا ہے۔ ان کا اعلان بھی موٹے حروف میں تاریخ ،دن، اوروقت کی وضاحت کے ساتھ ہو۔ اردو میں بھی ہو نیز ایک کاونٹر پوچھ تاچھ کے لیے خاص کیا جائے جو فجر سے لے کر رات نو دس بجے تک کھلارہے۔ اسی طرح پروجیکٹر کی مدد سے حجاج کی رہ نمائی کے لیے ضروری معلومات اور حج کے طریقہ سے متعلق ویڈیو مسلسل چلتا رہے تو اچھا رہے گا۔اسی طرح مسجد میں کھانے پینے کا نظم ، سونے کا نظم وغیرہ میں مزید صفائی ستھرائی اور مہذب ڈھنگ سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔
۷۔ حج فارم بھرتے وقت ہی یہ نظم ہو کہ جو لوگ ایک ساتھ سفر کرنا چاہتے ہوں ان کا فارم ایک ساتھ ہو کوئی فیملی کوڈ دیا جائے جو ایک فیملی کے سارے لوگوں کا ایک ہوتاکہ جب منظوری ہو تو سب کی ہو ، جو فلائٹ میں ایک ساتھ ہوں اور کہیں بھی گروپ بنانے کی ضرورت پیش آئے تو ایک فیملی کے لوگ ایک ساتھ ہوں۔ ایک ہی گھر کے لوگ، یا قریبی رشتہ کے لوگ یا ایک گاوں کے لوگ چاہتے ہیں کہ ایک ساتھ ہوں، تو آسانی ہوگی ۔ دیکھا گیا ہے کہ فلائٹ میں میاں بیوی یا باپ بیٹا الگ الگ ہوگئے ہیں، ایسی صورت حال نہ پیش آنے پائے اس کی پوری کوشش کی جائے۔
۸۔ مسجد سے ایئر پورٹ جانے کے لیے ہر بس میں ایک رضاکار حج کمیٹی کی طرف سے ہو، اسی طرح ایئر پورٹ پر باہر اور اندر ہر کاونٹر پر کارروائی میں مدد کرنے کے لیے رضاکار ہوں، جو اپنے ڈریس سے پہچان لیے جائیں تو اس سے حجاج کو تسلی ہوگی کہ ہاں ہماری مدد کے لیے افراد موجود ہیں ۔بصورت دیگر کام تو ہوجاتا ہے لیکن ان پڑھ اور دیہاتی لوگ جن کو سفر کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے، آغاز سفر میں ہی گھبراجاتے ہیں۔
۹۔ ہرجہاز میں کم ازکم دو رضاکار حج کمیٹی کی طرف سے ہوں جوعالم دین ہوں، دوران سفر رہ نمائی کرتے رہیں جہاز میں کھانے پینے اور استنجا وغیرہ کی ضروریات میں مدد کرسکیں ۔ نیز میقات آنے سے قبل باقاعدہ اعلان کریں اور نیت وتکبیر کے الفاظ پڑھوائیں۔ جہاز کے اہل کار بھی دریافت کرتے ہیں کہ ان میں نمائندہ کون ہے ۔ایسا بھی ممکن ہے کہ پورے گروپ میں کسی بھی عالم دین کو یہاں کٹھمنڈو ہی میں نمائندہ مقرر کردیا جائے۔اس کے پاس ہونے والی فلائٹ کے تمام حجاج کی لسٹ ہو اور بھی ضروری معلومات پر مشتمل اوراق ہوں۔
۱۰۔ جدہ ایر پورٹ پر بھی استقبال کے لیے اور جدہ سے مکہ لے جانے کے لیے بس آتی ہے اور معلم کے آدمی آتے ہیں، اگر اس وقت بھی حج کمیٹی کی طرف سے دوتین افراد ہوں جولوگوں کو نکلتے ہی جمع کریں ، بس پر سوار کریں، کوئی چھوٹ گیاہو یا کسی کا سامان نہیں ملا ہویا کوئی اور ناگہانی معاملہ درپیش ہوگیاہو تو اس کی کارروائی کراسکیں اور ہر بس میں سوار ہوکر ساتھ ساتھ مکہ تک جائیں تو حجاج کے لیے بڑی تسلی کا سامان ہوگا۔
۱۱۔ جب حجاج مکہ میں متعین ہوٹل میں پہنچیں تو اس وقت بھی استقبالیہ میں ہمیشہ حج کمیٹی کا نمائندہ ہونا چاہیے، جس سے لوگ کسی بھی معاملہ میں رجوع کرسکیں۔ سب کچھ جاننے کے باوجود کبھی کبھی لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس کی جانب سے کوشش کی جائے کہ پہلے سب لوگ اپنا روم کنفرم کرلیں ، سامان رکھ دیں، اور خاص طور سے نیا سعودی سم کارڈ لے کر چالو کرلیں ،نمبر ایک دوسرے کو دیدیں۔ ہوٹل کا کارڈ رکھ لیں، حج شناختی کارڈ رکھ لیں اس کے بعد ہی اطمینان سے عمرہ کے لیے حرم جائیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بہت جلدی میں تھکے ہارے چلے جاتے ہیں اور پہلی بار ہی میں گروپ کے افراد ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ ایک ساتھ دس بارہ جاتے ہیں تو دوتین کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ اور نہ موبائل ہوتا ہے ، نہ معلومات ہوتی ہیں اورحیران وپریشان ہوکر کسی طرح دیر گئے تک ہوٹل پہنچتے ہیں۔
اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اگر نیپال کا جھنڈا بڑی تعداد میں ساتھ لے جایا جائے اور جب بھی دس بیس لوگ حرم جائیں تو ایک جھنڈا ساتھ میں رکھیں۔ کوئی ایک فرد اس کو اونچا اٹھاکر چلتا رہے تو لوگ غائب نہیں ہوں گے۔ اور اس سے بھی آسان صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی غیر سلا ہوا کپڑا ہو اس پر نیپال کا چھوٹا سا جھنڈا ہو اور حجاج نیپال سنہ فلاں لکھا ہوا ہو جسے ہر حاجی مردعورت اپنے گلے میں باندھ رکھے تو اس سے بھی آسانی ہوگی۔ دور سے پہچان لیے جائیں گے اور کوئی غائب بھی ہوا تو کسی بھی نیپالی حاجی کے ساتھ ہوکر وہ اپنے ہوٹل یا خیمہ آسکے گا۔
۱۲۔ ہوٹل میں قیام کے دوران کھانے پینے کے معاملات ، کمروں کی صفائی، بیڈ بستر ، کولر اور ہیٹر وغیرہ ہوٹل کے افراد مہیا کراتے ہیں لیکن کمی وکم زوری یا خراب ہونے کی صورت میں وہ دھیان نہیں دیتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی نمائندہ ہو جو اس طرح کے معاملات دیکھ سکے۔ حجاج پہلے سے کرایہ جمع کرچکے ہوتے ہیں، ایسے میں بار بار لاپرواہی ناقابل معافی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہوٹل میں کبھی پانی ختم ہے کبھی کولر نہیں کام کررہاہے، کہیں بستر چاردر بدلنے کی ضرورت ہے، کہیں بیت الخلاء میں صفائی یا مرمت کی ضرورت ہے جس کو لے کر حجاج پریشان رہتے ہیں اور ایسی ہی چیزوں پر گفتگو میں اچھا خاصا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔
ہوٹل سے منی جاتے وقت اور مدینہ جاتے وقت بھی محسوس کیا گیا کہ اعلان کے مطابق بس نہیں پہونچتی ہے اور کوئی اطلاع بھی نہیں ہوتی ہے کہ بس کتنی تاخیر سے آئے گی ۔ دیکھا گیاہے کہ عشاء کے بعد کا علان ہے اور بس فجر کے وقت آرہی ہے پوری رات حجاج استقبالیہ میں اور روڈ پر گزارتے ہیں۔ البتہ حجاج کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر جگہ سب کے لیے گنجائش ہوتی ہے، بعد میں جانے یا تاخیر سے پہنچنے میں نقصان نہیں ہوگا ،اس لیے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔
۱۳۔ منی میں رہائش کی جگہ ناکافی ہوتی ہے ، کھانا ذوق کے مطابق نہیں ہوتا ہے، جمرات آنے جانے، عرفات جانے اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے کوئی اعلان اور ہدایات نہیں کی جاتی ہیں۔ یہاں بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ کوئی نمائندہ ہو جو اس طرح کے ضروری اعلانات کرے۔
۱۴۔ مکہ میں دوران قیام متحف مکہ، معرض الحرمین، مرکز حی النزھۃ، جامعہ ام القری اور دوسری اہم زیارتوں کا اہتمام بھی کروانا چاہیے ۔ بالخصوص مدینہ میں مسجد نبوی سے قریب کئی اہم زیارتیں ہیں معرض القرآن الکریم، معرض اسماء الحسنی، مکتبہ مسجد النبوی اور دوسری چیزیں بڑی آسانی سے زیارت کی جا سکتی ہیں۔
۱۵۔ عرفات سے واپسی کے وقت بس کا انتظام ہے یا نہیں؟ بس وقت پر آسکے گی یا نہیں؟ اس کی بروقت معلومات فراہم نہیں کی جاتی ہیں جس سے کافی تشویش ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ پیدل مزدلفہ آسکتے ہوں ان کی وقت پر رہ نمائی کردی جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ واپسی کے وقت حجاج بہت پریشان ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ مزدلفہ تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔
۱۶۔ منی میں قیام کے دوران جمرات جانے آنے میں بہت سے لوگ بیمار ہوجاتے ہیں اور کھانے پینے کی تبدیلی کی وجہ سے یا زیادہ محنت ومشقت کی وجہ سے بیمار ہوجاتے ہیں ۔ منی میں خاص ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے ڈاکٹرس ہوں، ان کی ابتدائی مدد کرسکیں یا وہاں حج کمیٹی کے نمائندہ پہلے سے اعلان کردیں کہ اگر کسی کو دوا علاج کی ضرورت ہوگی تو یہاں فلاں فلاں جگہ سرکاری اسپتال ہے وہاں رجوع کریں گے۔
۱۷۔ واپسی میں کٹھمنڈو ایر پورٹ پر حج کمیٹی کے افراد ہونے چاہیے جو حاجی آناچاہیں ان کو مسجد لائیں، ان کے تاثرات لیں اور پھر وہ اپنی سہولت سے گھرواپس جائیں ۔ یہاں ایر پورٹ پر اگر کوئی استقبال کرنے والا نہیں ہوتا ہے تو بھی پریشانی ہوتی ہے ۔ اس لیے اگر وہاںکوئی خبر خیریت لینے والا ہو تو آسانی ہوگی۔
۱۸۔ حج کمیٹی کوشش کرے کہ چالیس بیالیس لوگ سرکاری خرچ پر جائیں ،حجاج کی خدمت کے لیے۔ جن میں ۲۰/علماء، ۷/ڈاکٹرس، ۱۰/رضاکار اور ۵/ ممبران حج کمیٹی کے ہوں۔ کم ازکم ۲۰ /علماء ہوں جو دین اور شریعت کی اچھی معلومات رکھتے ہوں ، حج کے امور میں جگہ جگہ رہ نمائی کرسکیں ان کو رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ایسے افراد ہوں جو حج کرچکے ہوں، جوصحت اور عمر کے لحاظ سے مدد اور خدمت کرنے کے قابل ہوں، صحت مند ہوں کم عمر ہوں ، دوران سفر ضرورت مندوں کی مدد کرسکیں۔ عربی بول چال کی صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ حسب ضرورت پوری بات کرسکیں اور جاتے وقت ہر فلائٹ میں دو عالم دین ہوں۔
اسی طرح کم ازکم سات ڈاکٹرس ہوں اور ضرورت بھر دوائیں لے کر جائیں اور وہاں روزانہ حاجیوں کی عیادت کرسکیں۔ دس رضاکار قسم کے نوجوان بھی ساتھ لیے جائیں جن کو سفر کا تجربہ ہو سعودی قطر رہ چکے ہوں، عربی بول سکتے ہوں اور حاجیوں کی مدد کرسکیں۔ صحت مند اور محنتی ہوں۔ کاٹھمنڈو میں ہی اعلان کردیا جائے یہ فلاں فلاں ہیں جو حاجیوں کی خدمت کے لیے بھیجے جارہے ہیں۔ ان کے نمبرات بھی سب کو فراہم کردیے جائیں۔ اسی طرح پانچ حج کمیٹی کے افراد ہوں جو نیپالی اچھی طرح جانتے ہوں اور جن کے پاس سرکاری ورقہ ہو کہ یہ نیپال کے حاجیوں کی دیکھ بھال کا حق رکھتے ہیں اور ان سے متعلق شکایات سعودی اداروں کو بھی کرسکتے ہیں۔
۱۹۔ حج کافارم بھرتے وقت ایک لاکھ جمع کروایا جاتا ہے جب کہ کنفرمیشن ایک سال بعد ہوتا ہے حاجیوں کی یہ بھاری رقم سرکار استعمال کرتی ہے جو غیر مناسب ہے اور غیر ضروری بھی ہے۔ اس لیے فارم بھرتے وقت صرف پانچ سویا ہزار روپے فیس رکھی جائے اور جب نام فائنل ہوجائے تو ایک مہینہ کا وقت دیا جائے جس کے اندر پوری رقم ہرحاجی کو جمع کرنا ہوگا اور یہ مطلوبہ رقم جمع کرنے کے بعد ہی فنگر پرنٹ لیا جائے ۔
۲۰۔ حج کا فارم جمع کرتے وقت پاسپورٹ کی فوٹو کاپی ہی جمع کرائی جائے۔ ابھی اصل کاپی جمع کرلی جاتی ہے حالاں کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ فارم جمع ہونے سے لے کر کنفرم ہونے تک کئی مہینے بلکہ اب تو ڈیڑھ سال لگ جاتے ہیں جس میں پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے وہ کہیں سفر کرنے سے معذور ہوتے ہیں۔ رمضان میں، کسی بین الاقوامی پروگرام میں، سیمینار میں ، تجارت یا کسی اور غرض سے بیرون ملک جانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاسپورٹ جمع ہوچکا ہوتا ہے اس لیے سفر ناممکن ہوتا ہے ۔
اسی طرح جو لوگ بیرون ملک برسرروزگار ہیں اور اپنے والدین یا اہلیہ کے ساتھ حج کرنا چاہتے ہیں ایسی صورت میں ناممکن ہے ۔ اس لیے جب نام فائنل ہوجائے تو ایک مہینہ کے اندر رقم اورعید الفطر کے بعد شوال کے آخر میں جب ویزہ کی کارروائی شروع کرنی ہو اس وقت پاسپورٹ کی اصل کاپی جمع کروائی جائے تو اچھا رہے گا۔
۲۱۔ حج کمیٹی کے ممبران کا انتخاب اس طرح ہو کہ اس میں علماء، دینی قائدین، دینی جماعتوں کے نمائندگان، کی اکثریت کو یقینی بنایا جائے اور ایسے افراد کو رکھا جائے جو حج کرچکے ہوں ، دینی معلومات رکھتے ہوں، اور اس معاملہ کو اچھے ڈھنگ سے انجام دے سکتے ہوں۔
کل ممبران ۲۵/ ہوتے ہیں ان میں کم ازکم ۱۵؍ علمائے کرام ہونا چاہیے۔ جو ملک کے ہرعلاقے اور ہرمکتب فکر سے ہوں۔
۲۲۔ وہاں دیکھا گیا ہے کہ حاجیوں کا سارا معاملہ معلم کے حوالہ ہوتا ہے نہ وہ کبھی دکھائی دیتا ہے اور نہ اس کی جانب سے حاجیوں کی دیکھ ریکھ پر مامور افراد دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی انتظام وانصرام سے متعلق معلومات بروقت پہنچاتے ہیں ۔ یہ سب کافی پریشان کن معاملہ ہے بلکہ حاجیوں کی مشکلات کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔اس لیے حج کمیٹی کی جانب سے جو نمائندہ علماء جائیں ان کو معلم کا نمبر اور معلم کے معاونین کا واتس اپ نمبر ضروری ہے اور ان کا ایک واتس اپ گروپ ہو جس میں معلم ، معلم کے اہل کار اور حج کمیٹی کے نمائندہ علماء وممبران ہوں اور اس گروپ مین انتظام وانصرام سے متعلق معلومات معلم کے افراد اپ ڈیٹ کرتے رہیں اور حج کمیٹی کے نمائندہ علماء حاجیوں کو مطلع کرتے رہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا تبھی مسائل حل ہوسکیں گے۔
یہ بعض اہم مسائل ہیں جن کو بیان کیا گیا ہے اگر ان کو سنجید گی سے لیا جائے اور غور کیا جائے تو امید ہے کہ نیپال کے حاجیوں کے مسائل کم ہوں گے اور ان کے لیے بہت کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ قارئین سہ ماہی پیغام اس سے استفادہ کریں گے ، علماء اور دیگر احباب تک یہ معلومات منتقل کریں گے تو کوئی سبیل ضرور پیدا ہوگی اور اس جانب کامیابی مل سکے گی۔ اللہ تعالیٰ حجاج بیت اللہ کے مسائل کو آسان بنائے اور جولوگ ان کے امور سے وابستہ ہیں ان کو خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کی سعادت بخشے۔ آمین!
तपाईंको प्रतिकृयाहरू