اسلام اللہ جل شانہ کا محبوب ترین ہے ،جس کو اللہ نے پسند کیا،قرآن کی آیت نازل ہوئی (بیشک اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے )اسلام کا نظام فطرت انسانی زندگی کے عین مطابق ہے قوانین اصول ضابطے انسانی زندگی میں بہتری پیدا کرتے ہیں،اسلام نے اپنے متبع کو ہر قسم کی دنیاوی اعلائشوں سے پاک رہنے کی ترغیب کرتا ہے،جسمانی طہارت کے ساتھ عملی طہارت کے بھی اُصول وضع کئے ہیں،انسان غلطیوں کا مجسمہ ہے اورہرحال میں اس سے غلطی کا صدور ہوگا صرف ایک ذات ہے جو غلطیوں سے پاک ہے وہ فرشتوں کی ذات۔رمضان کا روزہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور یہ ایسی عبادت ہے جو برائیوں ،لغوفضولیات کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔روزہ پاکی چاہتا ہے اس لئے اللہ رب العالمین نے اس کو اپنے لئے مختص کررکھا ہے اور اس کس اجر وہ خود دے گا،یہ ایسی عبادت ہے کہ بندہ دن بھر اپنے خالق کے خوف سے بھوکا رہتا ہے ،اور ہر جگہ اس حاضروناظر سمجھتا ہے تبھی دنیاوی لذات کو سامنے پاتے ہوئے بھی رکا رہتا ہے ،ہاں انسان غلطیوں کا پتلہ ہے نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی جانے انجانے میں ہوہی جاتی ہے جس کی تلافی اور روزہ کی پاکی کے لئے رمضان کے روزے کی تکمیلیت پر صدقہ فرط ادا کرنا ضروری قرار دیا ہے ۔صدقہ فطر ہر مسلم پر ادا کرنا واجب ہے جسے عید کی رات نکالنا ضروری ہوتا ہے ،اگر کسی نے عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد نکالا تو اس کا وہ صدقہ فطر نہیں ہوگا،زکاۃ الفطر ایک صاع ہے،حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا(( فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر صاعاً من تمر أو صاعاً من شعیر،علی العبد والحر والذکر والأنثی والصغیر والکبیر من المسلمین ،وأمر بھا أن تؤدی قبل خروج الناس الی الصلاۃ)) متفق علیہ
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ بندے او رآزاد ،مرد وخاتون،چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر زکاۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ادا کرنا فرض ہے۔
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال کنا نخرج زکاۃ الفطراذا کان فینا رسول اللہ ﷺ صاعاً من طعام اور صاعاً من تمر ،اور صاعاً من شعیر او صاعاً من زبیب اوصاعاً من اقط(متفق علیہ)
ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ ہم زکاۃ الفطر اس وقت نکالتے جب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان ہوتے تھے ۔اشیاء خوردنی سے ایک صاع یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع اقط۔ (متفق علیہ)
قابل دکر بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے جائز ہے کہ وہ ایک صاع کھانے والے چیزوں کو نکالے جیسے چاول اور اس جیسے، لیکن مقصد زکاۃ الفطر ایک صاع کا نکالنا ہے ۔اگر کسی نے زکاۃ الفطر نکالنا چھوڑ دیا تو اس پر گناہ ہوگا اور اُس پر واجب ہوگا کہ قضاء کرے(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء(۵۷۳۳)جلد ۹ص ۴۶۴)
سوال زکا ۃ الفطر اُس بچے کی طرف سے نکالاجائے گا جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے یا نہیں؟
جواب:ایسے بچے کے طرف سے زکاۃ الفطر نکالنا مستحب ہے جیسا کہ عثمانؓ نے کیا ہے ،لیکن اس پر ضروری نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء ( ۱۴۷۴)جلد ۹ ص ۳۶۶)
سوال :زکاۃ الفطر عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد سے اُّ دن کے آخری وقت تک ہے؟
جواب:زکاۃ الفطر کے ادائیگی کا وقت عید کی نماز پڑھنے کے بعد نہیں شروع ہوتا ہے ،بلکہ یہ غروب شمس سے رمضان کے آخری دن تک ہے،جو شوال کی پہلی رات ہے ،او روہ عید کے نماز کے ادائیگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے ،اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جس نے نماز سے پہلے ادا کیا اس کا یہ زکا ۃ الفطر مقبول ہوگا،او رجس شخص نے نماز کی ادائیگی کے بعدادا کیا یہ اُس کا صدقہ ہوگا۔او جائز ہے کہ ایک دودن پہلے ادا کردیا جائے ،جیسا کہ ابن عمرؓنے فرمایا کہ ((فرض رسول اللہ ﷺ صدقۃ الفطر من رمضان)) او رآخر میں کہا کہ ((وکاونو یعطون قبل ذلک بیوم او یومین))
’’ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے صدقۃ لفطر کو فرض کیا ہے ،او رمزید یہ کہ یہ لوگ ایک دودن پہلے زکاز الفطر ادا کردیا کرتے تھے‘‘ جو شخص تاخیر کرے اور وقت پر نہ نکالے ایسے شخص کو توبہ کرنا چاہئے(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء (۲۸۹۶)جلد ۹ ص ۳۷۳)
زکاۃ الفطر کے مشروع ہونے کی حکمت کی ہے ؟کیا اس کو فقراء میں تقسیم کیا جانا جائز ہے؟
جواب: (فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین)
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے دوروسلام ہو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ۔
زکا ۃ الفطر کے مشروع ہونے کے حکمت یہ ہے کہ وہ روزہ داوروں سے رمضان المبارک کے متبرک ماہ میں عمداًیا سہواً زبان سے نکل جانے والی لغوباتوں اوررفث کے پاکیزگی بخشتا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ (( فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر طہرۃ للصائم من اللغو والرفث ،وطعمۃ للمساکین)) ابو داؤد ؍ابن ماجہ ؍دارقطنی؍ حاکم)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے زکا ۃ الفطر کو فرض کیا ہے جو روزہ داروں کو لغواور رفث سے پاک کرتا ہے او رمسکینوں کے لئے کھانا ہے ۔
انسان بھو ل چوک اور غلطیوں کا خزینہ ہوتا ہے ،ہر حالت میں غلطی کا صدور ممکن ہے ۔اگر کو ئی یہ کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا تو یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ فرشتوں کی ذات ہے جو غلطی نہیں کرتی۔
رمضان المبارک کا ماہ سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک ایسا ماہ ہے جس کے اجر کو اللہ رب العالمین نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے ،اس لئے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے ازالے کے لئے شریعت نے زکاۃ الفطر کا مسلمانوں کے اوپر فرض کیا ہے ۔جو ہر روزہ دار کو لغوورفث سے پاک کرتا ہے ،جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے ،یہ زکاۃ الفطر مسکینوں کے لئے ہے اس کی ادئیگی ایک دودن قبل کیا جائے تاکہ مساکین بھی ہمارے خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔
بعض احادیث کچھ اس طرح سے ہیں((أغنوھم عن الطواف فی ھدالیوم))اس کی تخریج دار قطنی نے کی ہے اور ابن عدی ،ابن سعد نے طبقات ابن سعد کے اندر )ان کو آج کے دن چکّر لگانے سے آزاد کردو‘‘
حدیث مذکورہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اُن کو کھانا کھلاؤاو راُن کے حاجات (ضروریات )ک وپورا کرویہاں تک کہ وہ عید کے دن چکر مارنے سے مستغنی ہوجائیں۔کیونکہ خوشی او رفرحت کا دن ہے ۔
پھر اُن لوگوں کی طرف سے بھی زکا ۃ الفطر ادا کیا جائے جو ابھی بچے ہیں او رغیر مکلف ہیں او روہ لوگو جو روزہ دار نہیں (معذور)یاسفر میں ہیں۔ایسے لوگوں کی جانب سے زکاۃ الفطر نکالاجائے گا کیونکہ جب ان لوگو ں سے ان کے عذر زائل ہوجائیں گے تو وہ اپنے روزوں کا قضاء کریں گے البتہ بچہ پر رو زہ فرض نہیں وہ قضاء نہیں کرے گا،اگر زکاۃ الفطر کو مختلف فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال: زکاۃ الفطر کو نقد کھانے کے بدلے نکالنا کیسا ہے ؟جبکہ نقد کھانے کی اشیاء سے زیادہ ولوگوں کو ضرورت ہے۔
جواب:(فضیلۃ الشیخ أ د ؍ سعود عبداللہ الفنیسان
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے دوروسلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر وبعد!
زکاۃ الفطر کو نقد قیمت میں نکالنا مختلف فیہ مسئلہ ہے اس میں علماء کرام کا دو قول ہے ۔
(۱) اس سے منع کیا جائے اس کو تینوں اماموں نے کہا ہے امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد نے او رامام ظاہریہ نے بھی اسی طرح کہا ہے او رعبداللہ بن عمر کی صحیحین کی اس روایت پر استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺؓ نے فرمایا کہ :((فرض رسول اللہ ﷺزکاۃ الفطر صاعاًمن تمر،أو صاعاً من بر،أوصاعاً من شعیر (اور دوسری روایت میں صاعاً من أقط ایا ہے )علی الصغیر والکبیر من المسلمین))
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ زکاۃ الفطر ایک صاع کھجور ،گیہوں،شعیر،ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض ہے ،امام حضرات وجہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ اگر زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائز ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اس کا تذکرہ ضرور کرتے ۔اور دوسری حدیث جو استدلال میں پیش کرتے ہیں کہ وہ یہ ہے کہ ((أغنوھم فی ھذالیوم))اس دن سے ان کو مستغنی کردو‘‘ مزید امام حضرات کہتے ہیں کہ کہ فقراء ومساکین کو اس دن (یوم عید)کھانے کے لئے سوال کرنے سے مستغنی کردیا جائے ۔
دوسرا قول:
زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائز ہے ۔امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ خیال ہے ۔اور اسی کی متابعت سفیان ثوری ،حسن بصری اور خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز نے کی ہے ۔جیسا کہ معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ((انی لأوی مدین من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر )) اور حسن بصری فرماتے ہیں کہ (( لابأس أن تعطی الدراھم فی صدقۃ الفطر)) کوئی حرج نہیں کہ صدقہ فطر درہم میں ادا کئے جائیں۔
اور عمر بن عبدالعزیز نے بصرہ کے عاملوں کو لکھا :(( أن یأخذ من أھل الدیون من أعطیاتھم من کل انسان نصف درھم)) او رابن منذر نے اپنی کتاب ’’ الاوسط‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ (صحابہ کرام نصف صاع گیہوں نکالنے کی اجازت دیتے ۔)
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ کہ زکاۃ الفطر نکالتے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ جو مستحق زکاۃ الفطر ہے اس کو کس چیز کی حاجت ہے ،اگر غذائی ضرورت مندہے تو بلاشبہ کھانے کے اجناس سے زکاۃ الفطر ادا کیا جائے اور اگر وہ نقد کا ضرورت مند ہے تو اس کو نقد دیا جائے ۔کیونکہ نقد اس کے لئے نفع بخش ہے ،اور ملک بھی خیال کیا جائے گا۔
اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ((أغنوھم فی ھذالیوم))سے اندازہ لگتا ہے کہ فقراء اور مساکین کس چیز سے عید کے دن خوش او رفرحت محسوس کریں گے۔اگر نقد ان کو دیا جاتا ہے تو عید کے دن نئے کپڑوں کا بھی بند وبست ہوسکتا ہے ،بچے بوڑھے جوان سبھی خوشیوں میں شامل ہوسکتے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ نے زکاۃ الفطر کے بارے میں تین قول ہے (۱) زکاۃ الفطر کی جبہ مال دینا حرام ہے اس لئے اللہ کے رسول ﷺ کے قول کی مخالفت ہوگی۔(۲)افضل ہے کہ کھانے کی چیزیں دے جائے اور مال کا دینا جائز ہے لیکن سنت نبویﷺ کی مخالفت ہے۔(۳)افضل ہے کہ فقیر کی حالت اس کے ملک او راس کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جائے تو اس کے لئے مال دینا افضل ہوگا۔
تحریر:۔
محمد ہارون محمدیعقوب انصاریؔ
چیف ایڈیٹر: ہفت روزہ صدائے عام
جنکپور نیپال
केयर फाउणडेशन द्वारा संचालित:
तपाईंको प्रतिकृयाहरू