عبدالمبین خان
نیپال ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود جن حالات سے گذر رہا ہے اقلیتوں کی بے چینی آپس میں دیکھنے کے لائق ہے بام گٹھن بندھن کے مسلم لیڈر وں کے تو حواس باختہ ہیں اس وقت ایک ہذیانی کیفیت سے دوچار الول جلول امور کو انجام دے کر قوم کو گمراہ کرنے کے کام میں لگے ہیں جب کہ ان تمام کو ان کی پارٹیوں نے جو سبق سکھایا ہے ان سے نہ تو ان سے دھرتے بن رہی ہے نہ اٹھاتے مسلم اتحاد سنگھٹن نے عید اور بقرعید کی چھٹی کو لے کر ایک جلسے کا اہتمام کیا تھا مگر وزیر دفاع ایشور پوکھریل جب بول رہے تھے تو اے مالے ہی کے مسلم نیتا تاج محمد و کئی دوسرے افراد نے ان کو بیچ میں ہی ٹوک دیا جس پر ایشور پوکھریل نے دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال بھی کیا بعد میں ایشور پوکھریل نے یہ کہہ کر رجوع کیا کہ میں اپنے پارٹی کی سوچ کو بتا رہا تھا کہ پارٹی نے کیا سوچ کر عید اور بقرعید پر عام تعطیل کا درجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ابھی کچھ لوگ مسلم منتخب و سمانوپاتک امید واروں کو صدر جمہوریہ سے تکریم کروانے کا ایجنڈا لے کر گھوم رہے ہیں آخر اس کام سے مسلم قوم کو کیا حاصل ہونے والا ہے؟ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید وہ لوگ اپنی پارٹیوں کی ایماء پر عید و بقرعید کی تعطیل اور پرتی ندھی سبھا اور راسٹریہ سبھا میں سماویشی اور سمانوپاتک طور پرمسلمانوں کو حاشئیے پر دھکیلے جانے سے جو غم و غصہ ہے اس کو دوسری طرف مبذول کرنے کا کام کررہے ہیں جو نہایت ہی معیوب بات اور قوم سے غداری کے مترادف ہے آج جب تمام طاقتوں کو ایک ہوکر آگے بڑھنے اور حقوق کی بازیابی کرنے کا وقت ہے تو آپ اگر مسلمانوں کی ذہنیت کو موڑنے اور جذبات سے کھیلنے کا کام کررہے ہیں تو اچھی بات نہیں ہے ایک طرف مسلم اتحاد سنگھٹن اگر اپنی سرکار سے حقوق کی بازیابی کو لے ٹکراؤ مول رہی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی غیر رسمی جماعت مسلم سنگھرش گٹھبندھن جس کی قیادتیں بھی بام گٹھبندھن سے بھی متعلق ہیں کا کردار مسلمانوں کے تئیں مشکوک نظر آرہا ہے آج جب حقوق کی بازیابی کے لئے میدان میں اترنے کا وقت ہے تو مسلم رہنماؤں کی تعظیم و تکریم کرواکر آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟ اس کا فائدہ ہو نہ ہو لیکن دوسری قومیں بھی اگر اسی انداز میں پیش رفت کرنےلگیں گی تو ایک کمیونل ماحول ضرور جنم لے گا مسلم سنگھرش گٹھبندھن کو تعلیمی ، سیاسی ، ثقافتی ، معاشی و اقتصادی مسلمانوں سے متعلق بہت سارے ایشوز ہیں جن کو اٹھانے اور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اس میں یا تو ارباب مسلم سنگھرش گٹھ بندھن کج فہمی حارج ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر ان ایشوز سے پہلو تہی اختیار کررہے ہیں مسلم اتحاد سنگٹھن کو بھی جس پیمانے پر احتجاج کرنے کی ضرورت ہے نہیں کررہا ہے جب کہ اسکے لیڈران کا کہنا ہے کہ انہیں ملک کے ستر فیصد مسلم عوام کی حمایت حاصل ہے عوامی حقوق کی بازیابی کو لے کر نیپال کے سیاسی افق پر اپنا نام لکھنے والی پارٹی ماؤوادی کیندر کی ذیلی تنظیم مسلم مکتی مورچہ اس وقت سیاسی اسکرین پر آنے سے گریز کررہی ہے اور اسکی قیادتیں حاشئیے پر چل کر دوسرے کے کندھوں سے بندوق داغنے میں سر گرمِ عمل ہیں جب کہ ان کوشش یہ ہونی چاہئے کہ حکومت پر پریشر ڈال کر مسلمانوں کے جائز ت حقوق کی بازیابی کرتے
نیپالی کانگریس کی ذیلی تنظیم مسلم سنگھ نے قسم کھا رکھی ہے کہ مسلمانوں کے حق لب کشائی نہیں کریں گے جب کہ نیپالی کانگریس سے مسلم پرتی ندھی سبھا ممبر اطہر کمال نے اس مسئلے پر کھل کر بولا تھا اور حقوق کی بازیابی کے سلسلے میں موصوف کے ذریعہ انکے پارٹی کی سوچ سامنے آئی لیکن مسلم سنگھ کی خاموشی تو کچھ اور ہی بیان کررہی ہےمسلم قیادتوں کو چاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قوم وملت کے حق میں مثبت قدمی کے ساتھ آگے بڑھیں ورنہ قومی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے
तपाईंको प्रतिकृयाहरू